Monday 20 July 2015

SYED MEHTAB SHAH
An intellectual and cultural god of Hazara
Some people has never removed the essence of his motherland beauty and love, as Syed mehtab Shah is a son of soil who remember his motherland cultural, littrarary heritage and other aspect of his homeland. He born and grew up partly in his village “Bassan” in Bala Koy, Mansera and spent his life since present moment in Karachi but he promote his cultural heritage in this metropolitan city of Pakistan. He produced the first Hindko Tele film چاچی جُل کراچی  (Aunty goes to Karachi) and second پہولا تے پہولا or Simple man and lady of Hazara.
SYED MEHTAB SHAH (Shah Jee) born on June 1965, past 1st grade metric exam from Garhi Habibullah High School and went to Karachi forever. He was a restless person and he presented the ever first Hindko Drama ماسی دیا پُترا (My cousin) on his 20th anniversary day in Karachi. He also introduced 1st Hindko Qawali, first Hindko Mashaera and first self written Hindko fiction Anthology book مہتابیاں in April, 2015. 
*********************************
Searched & analysed by
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
Journalist, Historian, Anthropologist & Blogger

For contacts
Cell Phone # 0331-5446020 , E Mail: alvibirotvi@gmail.com


ہندکو زبان و ادب کی تاریخ
سید منظرعلی نقوی


زبان اور بولی میں یقینا فرق ہے، کسی بھی زبان کی تکمیل میں شعر وادب کے ساتھ اُس زبا ن کی تاریخــ' ثقافت ' آرٹ کا ورثہ کے وجو د کا ہو نا لازم ہے ۔تاریخ کے اوراق ' نشانات ' آثار قدیمہ اور آرٹ کے نمو نو ں کو کھوجنا او رپھر اُن کے گمشدہ حوالو ں کو باہمی ربط دے کر ایک زنجیر کی تخلیقی صور ت میں لانا بہت ہی جان جو کھوں کا کا م ہے ۔ہزاروں برس پر محیط گمشدہ تاریخ کو پتھروں ، پہاڑوں ، دریا ئو ں ، سکّوں ،لہجوں ،اور مختلف لوک ثقافتوں کو ایک لڑی میں رو کر زبان کے وجود کو ثابت کر نا دقت طلب کا م تو ہے ۔قد م قدم پر ٹھو کر کھانے کا احساس بھی ہو تا ہے ۔ہندکو زبا ن کی تاریخ اور شعر و اداب کو انہی خطو ط پر دیکھنے کی ضرور ت ہے۔


بّر صغیر کی قدیم زبانو ں میں ایک قدیم ترین زبان ہندکو ہے جو گندھارا تہذیب سے پہلے بھی کئی صدیوں سے مو جو د تھی اور تو اتر کے ساتھ بولی جارہی تھی۔ گندھارا تہذیب تو ہزاروں بر س سے اپنے ہو نے کی گو اہی دے رہی ہے۔ گندھارا سے پہلے اس خطّے کو دردستان کا علاقہ کہا جاتا تھا۔ مو جو دہ شمالی علاقہ جات کا قدیم نام بلورستان ہے، قدیم بلورستان کی زبانوں میں بلتی،شینا، چترالی،گلگتی،گوجری ، لداخی،اور دیگر کئی زبانیں او ر بولیا ں شامل ہیں جبکہ دردستان کا علاقہ قندھار سے جہلم تک ،بعض تاریخ دانوں کے مطابق سندھ تک جاتا ہے جہاں زیادہ تر سندکو یا ہندکو ہی بولی جاتی تھی ۔یہ بات تو طے ہے کہ تما م تہذیبیں دریائوں کے کنا روں پر آباد ہوئیں ۔ دریا ئے سندھ  کے کنا روں پر بو لی جانیں والی تمام زبانیں ،ہندکو یا سندکو کہلاتی ُہیں ۔ہندکو زبان کے حوالے سے یہ غلط فہمی عا م ہے کہ یہ ہند سے ہندکو ہے ایک اعتبار سے یہ قیا س درست ہو سکتاہے ہندکو زبان کے حوالے سے یہ غلط فہمی عا م ہے کہ یہ ہند سے ہندکو ہے ایک اعتبار سے یہ قیا س درست ہو سکتاہے لیکن یہ حقیقت ہر گزنہیں ہے ہند کا اصل سندھ ہے اور اسی حو الے سے ملک کانا م بنا،بعد میں یہ خطّہ ہند کے نا م سے رواج پا گیا اس مملکت کا وجو د کو ہ ہمالیہ کے جنوب اور بحر ہند ، بحر عر ب کے شمال اور خلیج بنگال کے شمال مغر ب میں ایک تکو نی خشکی کا ٹکڑا دنیا کے نقشے پر نظر آتاہے ۔جس کی سنہر ی اور تاریخی تہذیبیں ہڑپہ اور موہنجو دڑویعنی مردوںکا ٹیلہ کے مقامات پر نمو پذیر ہوئیں ۔ہند کوکا مرکز بعض سبک رو اور سیر ابی بخشنے و الے دریائو ں کے آس پاس رہا ۔اسی لیے اس کو سبت سندھو بھی کہا جاتا رہا یعنی سات دریا ئو ں کی سر زمین،جو بعد میں ہخامنشی بادشاہو ں نے سین ہٹا کر ہند کر دیا ۔بّر صغیر کے حو الے سے سکائی لیکس )Sky lax) نے پہلی کتاب تحریر کی اس کتاب میں اُس نے ہندوستان کے با رے میں عجیب معلومات دی ہیں سکائی لیکس کو ایر انی بادشاہ داریو ش نے ۵۲۳قبل مسیح سے ۲۵۶قبل مسیح کے دور ان دریائے سند ھ کی گزرگاہ دریا فت کرنے کے لئے بھیجاتھا ۔اُس کے ۲۰۰سال بعد ارسطو نے یہ کتاب دیکھ کر کہا کہ ہندوستان میں بادشاہو ں کو دیگر باشندوں کے مقابلے میں اعلی نسل کے لو گ قرار دیا جاتارہا ہے ۔سکا ئی لیکس نے ہندوستان کے حوالے سے بہت سی باتیں ازخود گھڑ کر یو نا نیو ں کو حیر ت زدہ بھی کیا۔ مثلاًیہ کہ یہاں کے لو گو ں کے دونو ں پائو ں بہت بڑے ہو تے ہیں جو وہ دھو پ سے سایہ کے لئے استعمال کر تے ہیں یایہ کہ یہاں کے لو گوں کے کان لمبے ہوتے ہیں اور وہ اپنے کانو ںسے اپنے جسم کو لپیٹ لیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک آنکھ رکھنے والے انسان ہیں دردستان یا دُرد ستان دڑاوڑی کی ایک شکل ہے۔لیچ (Leach) اورآرل ( Aural)کی تحقیق بھی یہی ہے البتہ سر جارج گریرسن (Grierson)دُردستان کے حوالے سے سنسکر ت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں رزمیہ شاعر ی بھی مو جو د ہے۔عظیم مو رّخ او رسیّاح ہیر و ڈوٹس نا م لے کر حو الہ نہیں دیتا البتہ سونا نکالنے والی چونٹیو ں کے ضمن میں اشارہ کر تا ہے۔پانینی اور ٹولمی نے بھی انھیں دراورائی ہی لکھا ہے۔ہندوستانی تاریخ دانو ں نے ان لو گو ں کو 'بربر' لکھا ہے اور '' نشٹ'' کہہ کر غیر آریائی ثابت کیا ہے ۔مسٹر تھرسٹن نے یہاں کے لو گو ں کو دراواڑوں سے پیشتر کے قدیم باشندے تسلیم کیا ہے چیٹر جی نے اپنی کتاب اینڈو آریان اینڈ ہندی (Indo Arayan and Hindi)میں خیال ظاہر کیا ہے کہ ہندوستان کے قدیم ترین باشندے یعنی حبشی النسل لو گ ، زمانہ قدیم کے پتھر کے دور سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل غذا کی تلاش میں بھٹکتے پھر تے تھے۔سب سے پہلے آسٹرک اور دڑاوڑی ہی تھے جنہوں نے اس خطے کو تمدنی بنیاد فراہم کی ۔ بعد میں آریا تہذیب نے مو جو د تہذیب کے خدّو خال کو سنو ارا ا و ر اضافہ بھی کیا ۔

ہندوستان میں آریا تہذیب کے اثر ات بہت گہرے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے اس دو ر میں انگریزی زبان و ثقافت برتر صور ت میں نظر آتی ہے یا جیسے انگریزوں سے قبل فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا ۔ادب کے حو الے سے تو یہ بات آج بھی حقیقت پر مبنی ہے ۔فارغ بخاری لکھتے ہیں ''تاریخی شواہد ایک اور وجہ کے مظہر ہیں جو زیا دہ قرینِ قیا س ہے۔ایرانی ہخامنشی بادشاہو ں نے دریائے سند ھ کے قریب کے علاقوں کا نا م ''ہندوکا ''رکھا تھا جو دراصل سندھو سے ماخوذ ہے اس کے معانی دریا کے ہے اس لئے سندھو دریائے سندھ کے نا م کے طو ر پر مستعمل تھا ۔انڈیا او رہند کے الفاظ ہی 'ہند و کا'سے ما خو ذ ہے معلو م ہو تا ہے کہ ہخامنشی علاقے کے ہندو کا نا م کی مناسبت سے اس کی زبان کا نا م بھی ہندو کو یا ہندکی رکھ دیا ہو گا''۔ قدیم ہندوستا ن کے حوالے سے ویدوں کا ذکر بھی آتا ہے چاروید تو بہت مقبول ہیں،  :

رِگ وید، یجر وید ، سام وید،اور اتھروید ، رِگ وید مذہبی حوالوںسے زیادہ مقبول تھے جس کے اشلو کو ں میں مِدحت بنیادی جُز ہے ۔یجر وید میںدیو تائو ں کے حضو ر جب قربانی پیش کی جاتی تھیں تو وہ دُعائیں یا منتر پڑھتے تھے ۔

سام وید میں دیگر مذہبی عبادت کے ساتھ ساتھ اُس زمانے میں ادب تخلیق کیا جاتا تھا اس کے علاوہ مو سیقی یا گائیکی کے لئے بھی سام وید استعمال ہو تے تھے ۔

اتھر وید میں زیادہ تر منتر ،جادو، او رٹو نے تھے جن کے ماہر دیو ی اور دیو تائو ں کا رُوپ بھی ڈھال لیتے تھے جو عو ام کو بے سکونی میں مُبتلا کر دیتے تھے چنانچہ بعد میں بُدھ مت اور جین مت اسی بے سکو نی کو ختم کر نے کے لئے وجو د میں آئے ۔اور لو گو ں کی مذہبی پریشانیوں کو بہت حد تک ختم کر نےکا باعث بنے ۔وید وں کو تحریر کی صور ت ۱۵۰۰قبل مسیح میں ملی۔ ان تما م وید وں کی زبان ہند کو یا ہندوی ہے البتہ رسم الخط کے حو الے سے خروشتی رسم الخط زیا دہ مقبول ہو ا وید وں میں غالب اکثر یت ہند کو لفظیات کی ہے ۔خروشتی رسم الخط کا ایک کتبہ ٹیکسلا میو زیم میں مو جود ہے ۔ ہند و کو زبا ن کے علا وہ یہا ں کئی پراکرتیں بھی بو لی اور لکھی جاتی تھیں ۔مہا بھا ر ت کی لڑائی ۸۰۰قبل مسیح میں ہو ئی مہا بھا ر ت میں جن مقاما ت کا ذکر آیا ہے و ہ آج بھی گندھارا کے علاقے میں نا موں کی ذراسی تبدیلی سے مو جو د ہیں۔ہندکو زبان کی قدیم ہونے کی گواہی تو ہخامنشی، مقد و نی ، موریہ، یونانی، باختری، ساکا ،ہندی ،پارتھی، کشان، ساسانی, ایرانی, کیداری ، ترکی اور ہندو شاہیہ اقوام کی تاریخ میں مل جاتی ہیں۔

ہند کو ادب کی تاریخ۱۵۰۰ قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے' ' پانینی '' نے سب سے پہلے ویدوں کو سنسکر ت میں جگہ دی۔ کوئی زبان یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ ویدوں میں صرف ان کی زبان شامل ہے۔ البتہ آہنگ کے اعتبار سے گندھا را پرا کر توں کے اثرات زیادہ نمایا ں ہیں البتہ الفاظ کی غالب اکثریت ہندکو زبان کی ہے۔ سنسکر ت میں بے شمار قدیم قصے کہانیاں درا صل ہند کو زبان کا ہی قدیم سر مایہ ہیں لیکن بد قسمتی سے ہند کو زبان یہ قدیم اور عظیم لوک سر مایہ الگ سے تر تیب میں نہیں لاسکی ۔ شائد آنے والے وقتوں میں ہند کو زبان کا کوئی دیوانہ محقق اسے سنسکر ت سے علیحدہ کرسکے۔

ہند کو ادب کا آغاز ویدوں کے اشلو کوں اور منتروں کی صورت شعری اوزان میں ملتا ہے۔ سنسکرت زبان کا بانی ''پانینی '' ضلع صوابی کی تحصیل چھوٹا لاہور میں پیدا ہواتھا۔ ''پانینی '' کا پورانام سلا تورا اور بعد میں ''لاور ''تھا۔ یہ علاقہ ہند کو بولنے والوں کا ہی ہے۔ ہند کو اضاف ادب میں شاعری سر فہر ست رہی ہے۔ قدیم شاعری میں ٹپہ ، چاربیتہ، رڑک، ٹہولا ، ابیتی (آپ بیتی) مستہ، سٹنی ، جوگا یا یوگا، دوہڑا، للو (لوری) اور حرفی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ جدید ہند کو شاعری میں غزل ، نظم اور ہائیکو کے اضافے ہوئے ہیں۔ ہند کو زبان کے کلاسیکل دور میں حمد، نعت، منقبت، سلام، مر ثیہ ، رباعی اور مسدس لکھی گئیں جو آج بھی تو ا تر سے لکھی جارہی ہیں ۔نثر میں ہند کو ادب کا فی زرخیز نظر آتا ہے ناول، افسانہ ، سفر نامہ، تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کے علاوہ مختلف علوم کی ہند کو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ کلامِ مجید کے منظوم اور نثری ہند کو تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ ہند کو ادب کے حوالے سے ہزارہ ہند کو، پشاوری ہند کو، کوہاٹی ہند کو، بنوسی ہندکو، اور ڈیرہ جاتی ہندکو کی کتابیں تسلسل سے شائع ہورہی ہیں جن کے اپنے اپنے رسم الحظ بھی ہیں۔ہند کو کے قدیم شعراٗ میں استاد رحمت خان رحمت ، استاد محمد دین مائیو، استاد شادا، بابا وجیدا، استاد فر دوس ، استاد کنہیا سنگھ ، استاد نا مور، استاد حاجی گل، استادمچھّی، استاد امام دین ہزاروی، استاد سخی نما ڑا ، استاد مہیّن ، استاد بر دا، استاد گاموں ، استاد رمضو اور استاد احمد علی سائیںپشاوری نمایاں ہیں۔یہ تمام شعرا حرفی اور چاربیتہ کے حوالے سے مقبول ہوئے۔

حرفی کی صنف کو استاد سائیں احمد علی پشاوری نے بامِ عروج پر پہنچادیا ۔ سائیں پشاوری کا زیادہ عرصہ مکھا سنگھ اسٹیٹ راولپنڈی میں گزرا۔ ان کی حر فیوں کو سن کر علامہ اقبال نے انہیں ہند کو /پنجابی کا غاؔلب قرار دیا۔ سائیں احمد علی پشاوری ہند کو زبان کے صوفی شاعرکی حیثیت سے ابھرے ۔صوفیانہ شاعری میں وہ شاہ لطیف بھٹائی ،سچل سر مست ، رحمان بابا، میاں محمد بخش، وارث شاہ، بلھے شاہ اور مست تو کلی کی صف میں نظر آتے ہیں۔ سائیں پشاوری نے اپنی شاعری میں تصوف اور عشق کی حقیقی منازل کے حوالے سے حر فیاں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری میں بے شمار ہند کو محا وروں کا استعمال ہند کو شاعری کو خوش کن بنا تاہے۔

اتھے مار دے ٹکراں خیال سائیاں

جھتے پونچ نہ بادِ صبادی اے

ہر بڑے شاعرکی طرح سائیں پشاوری کو بھی اپنے بڑے شاعر ہونے کا احساس تھا۔

میں تاکھو جیاں دابی استاد ہیواں تو اے سمجھے، سمجھدار ٹور نیئں میں سائیں زندہ دل زنگی رکھنا واں، دنیاجان دی اے زندہ در گور نیئں میں۔ سائیں نے اپنی شاعری میں حسن وعشق ، تصو ف ومعر فت ، جمالیاتی لطافتوں اور عالمگیر حقیقتوں کا اظہار خوبصورتی سے کیاہے۔ سائیں کی صوفیانہ شاعری کے حوالے سے راقم کا ایک مقالہ بعنوان ''عشق داراہی'' لہراںلاہور۱۹۹۴ء میں شائع ہوچکا ہے۔ سائیں احمد علی پشاوری ہفت زبان شاعر تھے ۔ انہوں نے ہندکو، پشتو، اردو، فارسی، پنجابی، پوٹھوہاری اور کشمیر ی زبانوں میں شاعری کی ہے۔ وہ ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ غزل، حرفی، چاربیتہ ، نظم ، رباعی، قطعہ، حمدو نعت ، منقبت و سلام، مر ثیہ و نوحہ کے ساتھ ساتھ انہو ں نے آٹھ کلیوں اور بارہ کلیوں والے بیت زنجیر ے بھی لکھے وہ موضوعات کے حوالے سے قادر الکلام تھے۔ تصوف، اخلاقیات، فلسفہ ، رموز عشق ، حسن و خیال، ہجرو فراق اورمعاملہ بندی ان کی شاعری کا احاطہ کرتے ہیں۔

اولاً عالم ہست سیوں ہاتف آپ کا پکار یا بسم اللہ

پھر قلم نوں حکم نوشت ہویا، سن کے قلم سر ماریا بسم اللہ

نقشہ لوح محفوظ دا وچ سینے ، قلم صاف اتاریا بسم اللہ

اس تحریرنوں سائیاں فر شتیاں نے پڑھ شکر گذار یا بسم اللہ

سائیں احمد علی کی۴۰۰حر فیوں کو سب سے پہلے افضل پرویزنے ''کہندا سائیں'' کے عنوان سے کتابی صورت دی بعد میں رضا ہمدانی نے سائیں احمد علی پشاروی کے عنوان سے ان کی تمام شاعری کو یکجا کر دیا۔ سائیں کے شاگردوں میں چڑ نگی، مسکین استاد گھائل سے لیکر جوگی جہلمی تک ایک سے بڑھ کر ایک معروف ہوئے ۔

جدید ہندکو غزل و نظم کی ابتدا رضا ہمدانی اور فارغ بخاری نے کی انہوں نے پہلی مرتبہ فارسی بحر وں ہندکو میں رائج کیا اس سے پہلے تمام ہندکوشاعری سیلابوں یعنی Syllabuls میںتھی ان کے اس کام کو خاطر غزنوی جلیل حشمی، سلطان سکون، آصف ثاقب ، غلام محمد قاصر ، عبدا للہ یزدانی اور الطاف صفدر نے آگے بڑھایا اور اب ہندکو زبان کا ہر شاعر غزل و نظم لکھ رہاہے۔

نثری تحقیق و تنقیدی کام کے حوالے سے مختار علی نّیر اور خاطر غزنوی قابل ذکر ہیں مختار علی نیئر نے صنف حرفی میں طزو مزاح کے حوالے سے کافی شہرت پائی ۔انہو ں نے پشاوری ہند کو رسم الحظ کے حوالے سے قابل قدر کام کیا نثری ادب کے حوالے سے ان کے رسم الحظ کو فروغ ملا۔ جبکہ رضا ہمدانی نے شعری رسم الحظ کو آسان تر بنایا جو آج ہند کو شعرا میں بہت مقبول ہواہے۔
سید مہتاب شاہ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
یوں تو کوئی بھی راہ ہومگر ضروری نہیں کہ ہرراہ منزل کی جانب ہی جاتی ہو،مختلف راہوں سے اپنے سفرکاآغاز کرنے والے اور مختلف منازل کو پانے والے ایک ایسے فنکاردوست سے آج آپ کا تعارف کرواتے ہیں جنکا کہنا ہے کہ گو کہ کسی بھی منزل کو پاناآسان نہیں ہوتا لیکن صاف نیت ،انتھک محنت اور ماں باپ کی دعائیں منزل کو خود بخود آپ کے قدموں تلے لے آتی ہیں۔ سید مہتاب شاہ عرف شاہ جی جو ہمہ جہت شخصیت،فنون لطیفہ سے ادب تک کی دُنیاکا سفر،پی ٹی وی اور اسٹییج سے فلم انڈسٹری تک کی تگ دو،فلمسٹار،ہدایتکار،مُصنف،نغمہ نگار ، پروڈیوسر ، کمپیئر،اور افسانہ نگار، پاکستان کے صنعتی و تجارتی

دارالحکومت کراچی میں پہلاہندکوتھیٹرباقائدہ طورمتعارف کرانے کا سہرہ، پہلاہندکوکلچرل میوزیکل پروگرام، پہلی ہندکومزاحیہ خاکوں پرمبنی آڈیوڈائیلاگ کیسٹ کا اجراء، پہلاہندکوقومی نغمہ، اورپاکستان کی پہلی ہندکوفلم ’’ چاچی جُل کراچی‘‘ کے پروڈیوسر،مصنف وہدایتکار،نغمہ نگاراور اداکار(پہولا) پاکستانی اردو  فیچرفلم ’’ ڈر‘‘ کے ’’ ڈان کے نام سے جانے والے اس فنکار کا تعلق پاکستان کی خوبصورت ترین وادی وادی بالاکوٹ سے ہے، جسے لوگ پاکستان کی جنت کے علاوہ شہدائے بالا کوٹ کے نام سے زیادہ جانتے ہیں،آٹھ اکتوبر (دوہزارپانچ) کے قیامت خیز زلزلہ کے بعد تو دنیا بالاکوٹ کے نام سے  مزید آگاہ ہو ہوچکی ہے، شاہ جی کا تعلق گوکہ بالاکوٹ کے قریب ہی ایک گاوں تلہٹہ سے ہے ،جبکہ ان کی پیدائش کراچی کی ہے اورابتدائی تعلیم بھی محمودآباد کے ابراہیم علی بھائی سکول سے حاصل کی،بعدازاں اپنے آبائی گاوں کے گورنمنٹ پرائمری سکول بسیاں سے پرائمری،گورنمنٹ مڈل اسکول شوہال معزاللہ سے مڈل اورپاکستان کو آزادکشمیرسے ملانے والے شہرگڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے سید مہتاب شاہ میٹرک کرنے کے بعد آپ اُنیس سو پچاسی میں آپ دوبارہ کراچی تشریف لے آئے،تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کو سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا،آپ نے اسٹیج ڈراموں سے اپنی منزل کی راہ کا تعین کیا،بعدازاں آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کا بھی دروازہ جاکھٹکایا جہاں علی رضوی پاکستان ٹیلی ویژن کے پروڈیوسرہونے کے ناطے ٹی وی لانگ پلے یووراوبیڈیئنٹ سرونٹ بنارہے تھے ،سید مہتاب شاہ کو علی رضوی نے سینئراداکارشفیع محمدشاہ مرحوم کے ذاتی ملازم کے بیٹے کے کردارمیں ایک انتہائی معمولی سے کردار کے لیئے فٹ کردیا،کالج کے سٹوڈنٹ نے جب ڈرامہ دیکھا تو سید مہتاب شاہ کونہ صرف مبارکبادیں دینی شروع کردیں بلکہ شاہ کے احترام میں بھی اضافہ ہونے لگا جسکی وجہ سے شاہ جی کو اپنی منتخب کردہ راہ پرفخرمحسوس ہونے لگا،چونکہ پاکستان میں پی ٹی وی کے علاوہ دوسراکوئی چینل تو تھا نہیں جسکی وجہ سے معمولی سے کردارمیں پرفارم کرنے فنکارکو ٹیلی ویژن دیکھنے والے پہچان لیا کرتے تھے ،بعد ازاں جب پرائیویٹ چینل کا سلسلہ شروع ہواتو پی ٹی این کے نام سے ایک چینل وجود میں آیا جو بعد میں ایس ٹی این کے نام سے جاناجانے لگا،تو سید مہتاب شاہ روبینہ اشرف کے مجرم کے طورپرپس آئینہ میں جلوہ گرنظرآنے لگے،اسٹیج ٹی وی کا یہ سلسلہ جاری وساری ہی تھاکہ شاہ جی پرپاکستان فلم انڈسٹری کے دروازے کھل گئے اور ناصرادیب کی لکھی ہوئی اور پرویزراناجیسے منجھے ہوئے ہدایتکارکی فلم ’’ڈر‘‘ کے کردارکے لیئے پرویزرانا کی عقابی نگاہ میں بطورولن ’’ ڈان‘‘ کے بہترین کردارکیلئے منتخب ہوگئے یادرہے کہ یہ کردارپہلے فلمسٹارندیم اداکررہے تھے لیکن بعدازاں سید مہتاب شاہ کی قسمت کاستارہ انھیں ڈرفلم کے ڈان کے روپ میں ایک ایسی راہ پر گامزن کرگیا جو انکی منزل کی جانب جاتادکھائی دے رہا تھا ، سید مہتاب شاہ نے پاکستانی  فیچرفلم ڈرکے مرکزی کردارمیں فلمسٹاربابر علی اور فلمسٹارشان کے باپ کے کردار میں بہترین کردارنگاری کرکے نہ صرف شائقین سے خوب داد وصول کی بلکہ انھیں یکے بعد دیگرے دو مزید فلموں کی آفر ہوئی جو انھوں نے بخوشی قبول کرلی اوریوں ریاض گجر اور شہزاد گجرکی فلم  ’’ جسم ‘‘ میں بھی ولن کے کردار میں خوب چچنے کے بعد تیسری فلم ’’ بھیگے ہونٹ ‘‘ میں اپنی کارکردگی کے جوہردکھانے میں کامیاب ہوئے ،سید مہتاب شاہ ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک ٹھہرے جن پر قسمت کی دیوی کچھ اس طرح مہربان ہوتی ہے کہ وہ جس راہ پر بھی گامزن ہوجائیں وہی راہ ان کی منزل کے نشان ڈھونڈنے میں انکی مددگارثابت ہوتی ہے ،سید مہتاب شاہ پاکستان ٹیلی ویژن جیسی اکیڈمی سے اداکاری کے رموذسیکھنے کے باوجود بھی شائد ابھی پیاسے دکھائی دے رہے تھے تو انھوں نے باقائدہ فنی تربیت کیلئے ناپاجیسے ادارے کا انتخاب کرلیااور وہاں داخلہ لینے کیلئے آڈیشن دینے والوں کی لائن میں جاکھڑے ہوئے ،وہاں بھی قسمت ان پر مہربان رہی اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنس آرٹ میں آڈیشن میں سرفہرست رہے اور پھر بین الاقوامی شہرت یافتہ ہستیوں سے تعلیم حاصل کرناشاہ جی کا روزکا معمول بن گیا،ناپاجیسے ادارے جس کے سربراہ ضیاء محی الدین جیسی شخصیت اور دیگراساتذہ میں طلعت حسین،ارشد محموداور معروف اداکارڈرامہ نویس اور افسانہ نگار ڈاکٹرانورسجاد جیسی شخصیت کا آخرکچھ تو اثرلیا ہوگا شاہ جی نے ،یاد رہے کہ سید مہتاب شاہ نے جہاں پاکستان ٹیلی ویژن ،اسٹیج اور فلم انڈسٹری میں اپنا نام بنایا وہیں ان کے کریڈٹ پر اور بڑاکام کراچی جیسے شہرسے ہندکو تھیٹرکوپروان چڑہانابھی ہے ،شاہ جی نے پاکستان میں پاکستان میں پہلی بار جہاں ہندکو اسٹیج ڈراموں کی باقائدہ داغ بیل ڈالی وہاں پہلی بارہندکو کلچرل میوزیکل پروگرام بھی انھوں نے کراچی سٹیج کے ذریعے متعارف کروائے جس سے ہندکو کے بہت سے فنکارپیداہوکرآج ٹی وی اورتھیٹرکی دُنیا میں اپنا نام پیداکررہے ہیں،جبکہ پہلی بار ہندکو مزاحیہ ڈائیلاگ کاسلسلہ بھی آڈیوکیسٹوں کی ذریعے متعارف کروا کرہندکوزبان اور ہزارہ کی ثقافت کو گھرگھرروشناس کرانے میں ایک اہم کرداراداکیا،بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ انتہائی دلچسب بات یہ ہے کہ سید مہتاب شاہ نے جس زمانے میں کراچی شہر سے ہندکو اسٹیج ڈراموں کا آغاز کیا اس وقت پورے کراچی میں ہندکوزبان سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک فنکار بھی دستیاب نہ تھا،بلکہ شاہ جی کے خاندان والوں سمیت کئی لوگوں نے انکی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ ان کے والد بزرگوارنے انھیں فنون لطیفہ سے اس قدر عشق کی پاداش میں گھر سے بھی نکال باہر کیاتھا،سید مہتاب شاہ اس زمانے میں گورنمنٹ نیشنل کالج میں سیکنڈایئرکے طالبعلم میں تھے اور ان کاگھر صدرکی جہانگیرپارک تھی جہاں سیمنٹ کے ایک بینچ پر یہ رات کو سو جاتے ،پارک کے کھمبے پربڑے روشن بلب کی روشنی میں اپنا کالج کا کام بھی کرتے اور وہیں آپ نے کراچی کی تاریخ کا پہلاہندکو اسٹیج ڈرامہ ’’ ماسی دیاپُترا‘‘ بھی اسی پارک میں بیٹھ کرلکھا،نہ صرف بلکہ پاکستان نیوی فلیٹ کلب لکی سٹارصدرکراچی کے خوبصورت آڈیٹوریم کے اسٹیج پر پیش کرکے یوں ہندکو ڈراموں کی داغ بیل بھی ڈالی،ہندکو زبان کے فنکاروں کی عدم فنکاری کو آپ نے قطعی طورپر اپنی راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیااور اس وقت کے دیگرزبانوں میں سٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے معروف اور مصروف ترین فنکاروں کی مدد سے پہلے ہندکو اسٹیج ڈرامہ ’’ ماسی دیاپُترا‘‘ کو اسٹیج کرنے میں کامیاب ہوئے ،اس وقت ہندکو اسٹیج ڈرامے میں ہزارے وال کا کرداراورہندکوزبان کواپنی بولی بنانے والے میمنی ،سندھی ،گجراتی،کاٹھیاواڑی ،پشتو،اردواورپنجابی زبانوں سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ فنکاروں میں شکیل صدیقی،روف لالہ،سکندرصنم مرحوم،لیاقت سولجرمرحوم،حنیف راجہ،روحی صنم ،شائدہ ملک،ملکہ پیرزادہ ،مہک حسینہ،ابراہیم رازکاکامرحوم،خالد سلیم موٹاکے علاوہ اخترمنیرمرحوم شامل ہیں،یہ سلسلہ تقریباچھ سال تک متواتریونہی چلتارہا،اور ان چھ سالوں میں سید مہتاب شاہ ہندکو زبان کے نہ جانے کتنے سٹیج ڈرامے بغیر ہندکواور ہزارے سے تعلق کے فنکاروں کے اسٹیج کرنے میں کامیاب وکامراں رہے ،ماسی دیاپترا‘‘ ،’’ گنجاپے تے بانکے پُتر‘‘،کھنگدے جُلو تے لنگدے جُلو‘‘،’’ ہرکدے آوجی‘‘،’’انی لیلی تے کانڑاں مجنوں‘‘،’’ذراچِھک پہاجی‘‘،’’ بُڈھامارے سیٹیئاں ‘‘ اور دیگرشامل ہیں،ان تمام ڈراموں کوسید مہتاب شاہ نے ہندکو فنکارنہ ہونے کی وجہ سے دیگرزبانوں کے فنکاروں کے تعاون سے پیش کرکے ہندکو زبان اور ہزارے وال قوم کو بام عروج پرلانے میں ایک منفرد کردار ادا کیا،یہی وجہ ہے کہ سید مہتاب شاہ آج ہزارے وال قوم کے دلوں میں دھڑکن بن کردھڑکتے ہیں اور ہزارہ وال قوم انھیں انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے ،سلسلہ یہاں پر رُکا اور تھما نہیں بلکہ شاہ جی نے اس سلسلے کو مزید نکھاربخشنے کیلئے سن انیس سی پچاسی سے انیس سو نوے تک جتنے بھی ہندکواسٹیج ڈرامے پیش کیئے پوری کراچی میں اس کے دعوت نامے میں مفت میں تقسیم کروائے تاکہ ہندکو عوام اپنے گھروں سے باہر آئیں اپنے کلچرکودیکھیں اسے انجوائے کریں اس پرناز کریں،سیدمہتاب شاہ کو دیکھ کرکراچی اسٹیج کے نہ صرف فنکاربلکہ ہدایت کاراوردیگرلوگ حیران تھے کہ کیسا عجب مردہے اس کے پاس گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی ہندکو فنکارنہ ہونے کے باوجود یہ جہدمسلسل میں جُٹاہواہے اور ہم لوگوں سے یہ کیسے کام لے رہاہے ،سید مہتاب شاہ نے پہلے ہندکو اسٹیج ڈرامہ ’’ماسی دیاپُترا‘‘ کیلئے پورے شہرکراچی میں پچیس ہزارفری دعوت نامے تقسیم کروائے تھے جبکہ ڈرامے والے دن چارسوچھیاسی نشستوں کے فلیٹ کلب میں صرف گیارہ ہزارے وال ڈرامہ دیکھنے آئے تھے اوروہ بھی فری میں،بعد ازاں مفت دعوت ناموں کی تعداد بیس ہزارسے پندرہ،دس اورپانچ ہزارتک لاتے لاتے بالآخرصفرتک لے آئے اور ہندکو زبان اور ثقافت سے دلچسبی رکھنے والوں کی تعداد گیارا سے ایک سو گیارہ تک آن پہنچی، سید مہتاب شاہ پندرہ جون انیس سو اکانوے کوجب ہندکو کی تاریخ کا معروف اسٹیج ڈرامہ ’’ چاچی جُل کراچی‘‘ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوئے تو پھر انھوں نے دوٹوک فیصلہ کیا کہ اب ایک بھی مفت دعوت نامہ کسی کو نہیں دیا جائیگا،بلکہ اخبارات کے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو اگاہی دی جائے گی،سید مہتاب شاہ اپنے اس تجرے میں یوں کامیاب ہوئے اور ریوآڈیٹوریم صدرکراچی جو اس ذمانے میں تھیٹرکیلئے ایک مشہورمقام تھا،ایک مشہورروزنامے میں اشتہاردیاگیا،اور چاچی جُل کراچی دیکھنے والوں کی تعداد ریو آڈیوریم میں دستیاب نشستوں سے دُگنی ہوگئی،یوں سید مہتاب شاہ کی کو نہ صرف حوصلہ ملابلکہ انکی گزشتہ چھ برس کی انتہائی کھٹن محنت کا پھل بھی مل گیا،ریوآڈیٹوریم کے برابر میں ہاشو آڈیٹوریم میں اس روز عمرشریف کا ڈرامہ چل رہاتھا،’’ چاچی جُل کراچی ‘‘ کی کامیابی پر عمرشریف صاحب نے بھی مبارکباد پیش کی اور ان تمام فنکاروں نے بھی جو گزشتہ چھ برس میں ہندکو زبان کی رہرسلوں کے دوران تقریباففٹی پرسنٹ ہندکو سیکھ چکے تھے ،چاچی جُل کراچی میں پہلے دوہندکوفنکاروں نے جنم لیا،جن میں ایک جاویداقبال اور دوسرے مشتاق قریشی تھے ،بعدازاں دونوں نے بڑانام کمایا،سید مہتاب شاہ نے جہاں پہلی بار ہندکو اسٹیج ڈراموں کی داغ بیل ڈال کرہندکوثقافت کی ترویج وترقی کیلئے رات دن ایک کیا، وہیں انھوں نے پہلی بارکراچی اسٹیج پر ہندکوکلچرل میوزیکل شوزکا انعقاد کر کے ہندکوثقافت میں بہت سے گلوکاروں کوپروان چڑھنے کا بھی موقع فراہم کیا،پہلی ہندکومزاحیہ ڈائلاگ پرمبنی آڈیوکیسٹ کے ذریعے جہاں گلوکاروں کوپروموشن ملاوہیں اس شعبے میں کام کرنے والے شوق کو بھی تقویت ملی اور یوں ہندکو ثقافت پروان چڑھتے ہوئے پھلنے پھولنے لگی،سید مہتاب شاہ کا جنوں ابھی اور بہت کچھ کرناچاہتاتھا،انھوں نے پاکستان کی تاریخ کا پہلاقومی ہندکونغمہ لکھ کرنغمہ نگاروں اور شاعروں کی فہرست میں بھی اپنے آپ کو شامل کرلیا،یہ نغمہ چودہ اگست دوہزارنو کو پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ دوچار  پرائیویٹ چینل سے بھی مسلسل نشرہوتارہا،قومی نغمے کے بول تھے ’’ آو کراں سرحد د ے نظارے ،سیل کراں تے جُلاں ہزارے ‘‘شاہ جی نے ہندکو زبان وثقافت کیلئے اپنی سالہاسال کی محنت اور اس کے نتیجے میں ملنے والی محبت اور پذیرائی پر مزید راہیں تلاش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم بنانے کاارادہ کرلیا،اور یوں وہ اپنے معروف اسٹیج ڈرامے ’’ چاچی جُل کراچی ‘‘ کو ٹیلی فلم کی صور ت دینے میں کامیاب ہوگئے،سن دوہزاردومیں انھوں نے اس پروجیکٹ پر کاغذی کام شروع کردیا جو دوسال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ساحل سمندرپر واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے فلماتے ہوئے صوبہ ہزارہ کی خوبصورت ترین وادی کاغان میں داخل ہوئے اور جھیل سیف الملوک کے علاوہ بالاکوٹ ،ناران،شوگراں،مظفرآباد،مانسہرہ،ایبٹ آباد،تربیلہ ڈیم اور ہری پورکے خوبصورت مقامات کو عکسبند کرتے ہوئے واپس کراچی پہنچے ،پاکستان کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم ’’چاچی جُل کراچی‘‘ کو پاکستان فلم سینسربورڈ نے پچیس سالہ سینسرسرٹیفکیٹ بھی دیاہے اور گورنمنٹ آف پاکستان سے باقائدہ کاپی رائٹ فلم ہے،چاچی جُل کراچی کی بے مثال کامیابی کے بعد سید مہتاب شاہ کو یہ اطمنان ہوجانا چاہئے تھا کہ ہندکوزبان وثقافت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے مگر بقول شخصے ’’ میری نگاہِ شوق کہیں ٹھہرتی نہیں ۔مجھے ہروقت تلاش ہے اک نئے آسمان کی‘‘ شاہ کہاں آرام وسکون سے بیٹھنے والے تھے انھوں نے ہندکولٹریچرکی کمی کوشدت سے محسوس کررکھاتھا،اس لیئے وہ گزشتہ ڈھائی سال سے ایک نئے پروجیکٹ پر خاموشی سے کام کررہے تھے ،کئی باررابطے کے باوجود شاہ جی نے اس رازکو را ز ہی رکھامگر صحافی بھی اپنا کام آخرکرہی جاتے ہیں ،ہمیں خبرملی کہ شاہ جی آجکل اس لیئے غائب ہیں کہ وہ ہندکوکے کسی بڑے پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں،پتہ چلاکہ موصوف ہندکو زبان میں افسانوں کامجموعہ لکھنے میں دن رات مصروف ہیں،گزشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان جیسے ایک باوقارادارے نے جب سید مہتاب شاہ کی ہندکو افسانوں پر مبنی مجموعہ ’’ مہتابیاں ‘‘ کا اعلان کیا تو پتہ چلا کہ موصوف کی تاریخ پیدائش چونکہ پندرہ جون ہے ،اورآپ نے پندرہ جون انیس پچاسی کو ہی کراچی میں ہندکو ڈراموں کی داغ رکھی تھی،پندرہ جون کو ہی پاکستان کی پہلی ہندکو فلم چاچی جُل کراچی کہ مہورت کا بھی اہتمام کیا تھا اور پندرہ جون سن دوہزارپندرہ کو آپ کی کتاب ’’ مہتابیان ‘‘ کی تقریب رونمائی کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سیکرٹری جناب احمدشاہ اورگورننگ باڈی کے دیگراراکین نے آپکی پچاسویں سالگرہ کاکیک کاٹ کرآپ کو ایک ساتھ دودومبارکبادیں پیش کی،ہندکو افسانوی مجموعہ ’’ مہتابیاں ‘‘ کی تقریب کی صدارت آرٹس کونسل کراچی کے نائب صدرجناب پروفیسرسحرانصاری فرمارہے تھے جبکہ معروف دانشورمہمان خصوصی کی نشست پرمحترمہ عالیہ امام صاحبہ جلوہ افروزرہیں،پاکستان ٹیلی ویژن کے سینئرپروڈیوسر اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کے رکن جناب اقبال لطیف نے اپنے خطاب میں سید مہتاب شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج سے بائیس برس پہلے پی ٹی وی پر ایک چٹے گورے اور چاکلیٹی سے جس لڑکے سے میں ملاتھا اسکانام میں نے پیارسے تابی رکھا تھا جسے آج آپ لوگ مہتاب شاہ کے نام سے جانتے ہیں،کراچی پریس کلب کے صدراور معروف شاعر جناب فاضل جمیلی نے کہاکہ سید مہتاب شاہ میں شرمندہ ہوں کہ جو کام گزشتہ انتیس برس میں ایک ہزارے وال ہونے کے ناطے اور وسائل ہونے کے باوجودمجھے کرنا چاہیئے تھا وہ شاہ جی نے کردکھایا جس پر میں انھیں دل کی گہرایئوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں،لائبریری کمیٹی کی چیئرپرسن اور گورننگ باڈی کی ممبرپاکستانی ڈرامہ مصنفین میں ایک معتبر نام محترمہ حسینہ معین آپا کا ہے جنھوں نے سید مہتاب شاہ کو نہ صرف مبارکباد پیش کی بلکہ ان کی اپنی ہندکو ثقافت اورکلچر سے اس قدرمحبت اور اس کے لیئے مسلسل تیس برس کام کرنے پر شاباش دیتے ہوئے،افسانہ نگارکی حیثیت سے سید مہتاب شاہ کو ’’ مہتابیاں ‘‘ کی صورت میں ہندکو لٹریچرمیں گراں قدراضافہ قرار دیا ہے،آرٹس کونسل کے سیکرٹری سید احمد شاہ نے اس بات کااعتراف کیا کہ بلاشبہ سید مہتاب شاہ بھانجے ہیں،اور ہندکوزبان وکلچرکے محسن ہیں ،اور مجھ سے واقعی بہت سی کوہتاہیئاں ہوئی ہیں میں اس شخص کو سپورٹ نہیں کرسکاجس طرح سے اس کا حق بنتاتھا،لیکن اس نے اپنی مدد آپ کے تحت جب یہ مقام حاصل کرکے ہمیں مجبورکردیاکہ ہم اس کی خدادادصلاحیتوں کااعتراف کریں تو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے انکی یہ کتاب ’’ مہتابیاں ‘‘ شائع کرنے کابیٹرہ اُٹھایا،چاہتاتو باقی کاموں کی طرح یہ کتاب بھی اپنی مدد اپ کے تحت یہ کرسکتا تھا لیکن آرٹس کونسل آف پاکستان سید مہتاب شاہ کا مشکورہے کہ انھوں نے نہ صرف ادارے کو عزت بخشی ہے بلکہ اپنے وقار میں اضافہ کیا ہے،سید مہتاب شاہ کے میٹرک کے زمانے کے کلاس فیلوسپریم کورٹ آف پاکستان کے معروف قانون دان منصف جان محمدنے اپنے خیالات کے اظہارمیں کہا کہ شاہ جی بچپن ہی سے ایک منفردشخصیت کے مالک تھے ،چپ چاپ اوراپنے آپ میں گم رہنے والاوہ خوبصورت سا بچہ جوکل اسکول کے بزم ادب کے ہرپروگرام کامیزبان ہواکرتاتھاآج تیس برس کے بعد مجھے ایک فلمسٹار،ایک نغمہ نگار،کمپیئر،مصنف وہدایتکار،پروڈیوسراورافسانہ نگار کے روپ میں نظرآرہاہے جسکی خوشی کی انتہاکو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصرہوں دُعاگوہ کہ سید مہتاب شاہ آپ نے جس طرح سے محنت کرکے پاکستان ٹیلی ویژن ،اسٹیج اورفلم انڈسٹری میں اپنا نام ومقام بنایا ہے بلکہ اپنی ہزارے وال قوم پر یہ احسان عظیم کیا ہے کہ ہندکو تھیٹرکو رائج کیا،ہندکو کی تاریخ کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم چاچی جُل کراچی جیسی صاف ستھری اور فیملی فلم دی جس پر نہ صرف ہمیں ناز ہے بلکہ ہمارے ہر گھر کی اصل کہانی ہے ،میری دعاہے کہ سید مہتاب شاہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی پائے،تاریخ اعوان کے مصنف معروف ایڈوکیٹ محترم جناب محبت حسین اعوان نے سید مہتاب شاہ کی ہندکو زبان وثقافت کیلئے تیس سالہ خدمات کو سرہاتے ہوئے کہا کہ ہزارہ کی سرزمین نے ہمیشہ ٹیلنٹڈ لوگ پیدا کیئے ہیں،قتیل شفائی اورایوب خان سے لیکرآج یہاں موجود آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی پرحکمرانی کرنے والے احمدشاہ ہوں یا کراچی پریس کلب پر حکمرانی کرنے والے فاضل جمیلی،فنون لطیفہ کی تقریباسبھی اصناف میں اپنے آپ کو منوانے والے سید مہتاب شاہ کو آج انکی پچاسویں سالگرہ پر مبارک باد پیش کرتاہوں اور پاکستان کی پہلی ہندکو فلم ’’ چاچی جُل کراچی ‘‘ کے بعد ہندکوافسانوی مجموعہ ’’ مہتابیاں ‘‘ جیسے ایک بڑے لٹریری کام پران کو سلام پیش کرتاہوں،مہتابیاں کی تقریب میں جہاں شہر بھرکی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنی والی شخصیات نے شرکت کی وہیں پہلی ہندکو ٹیلی فلم چاچی جُل کراچی کے مرکزی کردار ’’ چاچاجی‘‘ یعنی مشتاق قریشی کو دیکھ کرہزارے وال عوام بہت خوش ہوئی ،کراچی میں ہزارے وال قوم کے واحد نمائندہ اخبارروزنامہ شمال کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرجناب جاوید اقبال اورنیوزایڈیٹرآصف اقبال نے بھی شرکت کی اور سید مہتا ب شاہ کو ان کی سالگرہ پر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا،آخر میں پروگرام کے صدرجناب پروفیسرسحرانصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سید مہتاب شاہ نے جب ہندکو فلم چاچی جُل کراچی کی ڈی وی ڈی مجھے دی تو میں اسے گھر لے گیا،چونکہ میرے گھر والی بھی ہزارہ سے تعلق رکھتی ہیں انھوں نے کئی بار اس فلم کو دیکھا،اور آج جب سید مہتاب شاہ نے اپنی کتاب ’’ مہتابیاں ‘‘ مجھے پڑھنے کیلئے دی تو ہندکو پڑھ کر ایسا لگ ریاتھا جیساکہ ہندکو میری اپنی زبان ہے اور میں نے دوتین افسانے اچھی طرح سے بغیرکسی پریشانی کے پڑھ لیئے تھے ،مجھے بڑی خوشی ہے خاص کر انکا وہ افسانہ ہاں ’’ پُٹھی تمبی‘‘ جس میں ہزارہ وال قوم کی غیرت اور عزت کو بڑے احسن طریقے سے بیان کرتے ہوئے اسے رنگوں سے بھردیا ہے ،میں تو آج اس محفل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سید مہتاب شاہ سے کہوں گا کہ اس سے پہلے کہ کوئی ’’ مہتابیاں ‘‘ کااردوترجمہ کرے آپ ہی پہلی فرصت میں اپنی ہندکو کتاب کا ترجمہ اردوکرکے آرٹس کونسل کو دیں تاکہ باقی لوگ جو ہندکو نہیں پڑھ سکتے وہ آپکی اس کتاب سے ضرورفائدہ اٹھائیں،،سید مہتاب شاہ اجکل مہتایباں کا اردوترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے مختلف چینل سے مختلف پروگراموں میں کبھی ولن،کبھی ملنگ بابا،اور کبھی جعلی عامل اور پیر جیسے کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں،یادرہے کہ پچھلے دنوں آرٹس کونسل میں سید مہتاب شاہ کا لکھا ہوا شبیرکرن کی ہدایات میں اردوفیملی سٹیج ڈرامہ ’’ ناگن بنی سہاگن ‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا،ہال کھچاکھچ بھراہواتھا،فیملیز کی بڑی تعداد نے اس ڈرامے کو دیکھااور پسند کیا،اب پانچ اکتوبردوہزارپندرہ کو ایک بار پھر آرٹس کونسل آف پاکستان کے اشتراک سے سید مہتاب شاہ کالکھاہوا اور شبیرکرن کی ہدایات میں نیا اصلاحی ومزاحیہ اردودڈرامہ ’’ میں بنی دُلہن ‘‘ کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں،امید ہے کہ شاہ کے گزشتہ ڈراموں کی طرح یہ ڈرامہ بھی ہاوس فل اور فیملی ڈرامہ کہلائے گا،



 

 

شاہ جی کے مختلف فنکارانہ روپ

Mehtab Shah literary, cultural and other services for his motherland

(To be continued)

<Next>


External Links


  1. مہتاب شاہ کا آبائی علاقہ بالا کوٹ
  2. سید مہتاب شاہ کا لکھا اور گایا ہوا صوبہ ہزارہ کا ترانہ
  3. SYED MEHTAB SHAH writer actor and director of FIRST PAKISTANI HINDKO (tele)FILM "CHACHI JUL KARACHI"
  4. SYED MEHTAB SHAH’S HINDKO FILM ’'POHOLA TE POHOLI’'SONGS
  5. FIRST PAKISTANI HINDKO TELE FILM

  6. سید مہتاب شاہ ، تصویروں کے آئینے میں

  7. پاکستان کی پہلی ھندکو فلم چاچی جل کراچی
  8. سید مہتاب شاہ کی فلم "پہولاتے پہولی' 
  9. ھندکو ثقافت اور عوامی نمائندے
  10. مہتاب شاہ کی ھندکو فلمیں
  11. چاچی جل کراچی، مکمل فلم ملاحظہ فرمائیں
  12. فلم چاچی جل کراچی کا ایک نغمہ ملاحظہ فرمائیں
  13. پرسید مہتاب شاہ کا ڈرامہ ملاحظہ فرمائیں ARY 
  14. مہتاب شاہ سما ٹی وی کے ڈرامہ واردات میں، ملاحظہ فرمائیں
  15. رات جندرے تے، ایک اور ھندکو فلم
References

  1. ہندکو زبان و ادب
  2. ھندکو زبان 
  3. ھندکو سمیت کئی زبانوں کو خطرہ
  4. (2)ھندکو سمیت کئی زبانوں کو خطرہ
  5. پاکستانی زبانیں
  6. ایک دن ہندکو کیلئے

Biblography